Tag Archives: معلومات
ڈیجیٹل ڈکیتی -آپ کی مرضی سے
ہمارے ایک نوجوان کو موبائل پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آئی۔
مسٹر فراڈ: ” السلام و علیکم ، مسٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم آپ کے بینک کے ہیڈ آفس سے بات کر رہے ہیں۔ براہ کرم اپنا شناختی کارڈ نمبر اور ATM کارڈ نمبر بتا دیں”
نوجوان: ” آپ کون ہیں ؟ ، کہاں سے بول رہے ہیں ؟”
مسٹر فراڈ: میں نے عرض کی کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بنک سے بول رہے ہیں "
نوجوان نے کہا ،” لیکن یہ میرے بینک کا آفیشل فون نمبر نہیں ہے، میں مطلوبہ معلومات آپ کو کیوں دوں؟”
مسٹر فراڈ: کوئی بات نہیں- ہم آپ کو بینک کے آفیشل فون نمبر سے کال کر لیتے ہیں”
تھوڑی ہی دیر بعد بینک کے آفیشل فون نمبرسے کال موصول ہوئی- البتہ فون نمبر سے پہلے 002 کا کوڈ لگا ہوا تھا- اس پر نوجوان مطمئن ہو گیا کہ واقعی بینک سے کال آ رہی ہے-
مسٹر فراڈ: نے ایک بار پھر شناختی کارڈ نمبر اور ATM کارڈ نمبر مانگا-
نوجوان نے پوچھا،: لیکن آپ مجھ سے معلومات کیوں مانگ رہے ہیں؟”مسٹر فراڈ: نے بتایا : ” ہم آپ کے بینک اکاؤنٹ کو سیکیور کر رہے ہیں-"
اس پر نوجوان مطمئن ہو گیا اور اُس نے مطلوبہ معلومات ، بنک کی طرف سے فون کرنے والے کو فراہم کر دیں- کچھ دیر بعد نوجوان کے موبائل پر بنک کے نمبر سے میسیج آیا۔
” انٹرنیٹ پر آپ کا OTP نمبر (One Time Processing ) اگلے دس منٹ کےلئے یہ ہے-(ایک پانچ ہندسوں کا کوڈ مثلا 56432آیا )–
مسٹر فراڈ نے دوبارہ رابطہ کیا اور بولا،” آپ کے پاس جو پانچ ہندسوں کا کوڈ بنک کی طرف سے آیا ہے وہ ہمیں بتا دیں”
نوجوان نے بلا جھجھک وہ نمبر بتا دیا-
بنک سے پھر میسج آیا-
یوں اس نوجوان کے اکاؤنٹ سے دو لاکھ بارہ ہزار روپے کسی نامعلوم اکاؤنٹ میں منتقل ہو گئے-
احتیاطی تدابیر:
٭۔ بنک کی طرف سے فون آنے پر آپ اپنے آن لائن ٹرانسفر کاونٹ یا اے ٹی ایم کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات مت دیں ۔ کیوں کہ بنک آپ سے یہ معلومات اُس وقت مانگتا ہے جب آپ بنک سے کسی پریشانی کے سلسلے میں رابطہ کرتے ہیں ۔
٭- موبائل فون پر اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات کسی کو بھی ایس ایم ایس نہ کریں اور نہ ہی ای میل پر بھیجیں –
٭- اے ٹی ایم سے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی معلومات ، موبائل اور ای میل پر وصول ہوتی ہیں اُنہیں دیکھنے کے بعد ، کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کر لیں اور ای میل سے ڈیلیٹ کر لیں ، کیوں کہ ای میل اکاونٹ ھیک ہونے کے بعد ، آپ پر کسی وقت بھی ھیکرز کا حملہ ہوسکتا ہے ۔
٭-اگر آپ کے اکاؤنٹ میں زیادہ رقم ہوتی ہے تو ، اُسے آن لائن کبھی نہ کروائیں ۔
٭- آن لائن اکاؤنٹ میں چھوٹی رقوم رکھیں جو مختلف آن لائن بل پیمنٹ کے لئے ہوں ۔
٭- ای میل پر بہت سی سبز باغ دکھانے والی ، ای میل ملتی ہیں ، اُنہیں ڈیلیٹ کر دیا کریں ۔
٭٭٭٭٭٭٭فراڈیوں کی خلاف مہاجر زادہ کا جہاد ۔٭٭٭٭٭٭٭
٭-موبائل پر فراڈ
کیا پاکستان انگریزوں نے بنایا تھا !
"کیا پاکستان انگریزوں نے بنایا تھا؟ (روزنامہ نوائے وقت)
(روزنامہ نوائے وقت) کے نمائندے کو جواب تھا۔ تب کے متحدہ مسلم لیگ کے صدر جناب(پیر صاحب پگاڑا) کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں.
پاکستان کے ممتاز سیاست دان اور متحدہ مسلم لیگ کے سربراہ مردان علی شاہ پیر پگاڑا مرحوم کا ایک یادگار انٹرویو روزنامہ جنگ میں 16 جولائی 2000 کو شائع ہوا۔
اس انٹرویو کے پینل میں جناب سہیل وڑائچ، جناب زاہد حسین اور جناب عارف الحق عارف شامل تھے۔ ذیل میں تاریخی دلچسپی کے لئے اس انٹرویو کے کچھ منتخب حصے پیش کئے جا رہے ہیں۔
سوال: پیر صاحب! آپ متحدہ مسلم لیگ کے صدر رہے ہیں، اس حوالے سے گفتگو کا آغاز تحریک پاکستان سے کرتے ہیں؟
پیر پگاڑا: اس حوالے سے پہلے یہ واقعہ سن لیں پاکستان بننے سے پہلے تین جگہ پر ہندو مسلم فسادات ہوئے ان میں سے ایک علی گڑھ میں ہوا۔ یہ 1945 کا واقعہ ہے کہ میں علی گڑھ کی نئی بستی میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں خبر ملی کہ ایک سندھی قتل ہوگیا، ہم وہاں گئے کہ ہم سندھی کی لاش کو سنبھالیں۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا تو پتا چلا کہ یہاں پتھراؤ ہوا ہے۔ تھوڑی دیر میں ڈی سی صاحب اور ایس پی صاحب آگئے۔ یہ ایس پی ٹیکسن صاحب تھے۔ ان کے بارے میں کسی نے بتایا کہ یہ وہ ایس پی ہیں جو انگلینڈ سے اپنے دوست کی بیوی ورغلا کر لائے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ اچھے خون والا بندہ ایسا کام نہیں کر سکتا۔
(Like father Like son ) تو خیر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایس پی نے خود ہی توڑ پھوڑ شروع کر دی اور اسی دوران بازار میں آگ لگ گئی اور فساد شروع ہوگیا تو اس واقعہ کا تو میں خود عینی شاہد ہوں کہ کس طرح ایک انگریز نے ایک سندھی کی بازار میں ذاتی لڑائی کو ہندو مسلم فساد بنا دیا۔ میں اس واقعے کا عینی شاہد ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ فساد پاکستان کے لئے نہیں تھا۔ یہ تو کروایا گیا تھا۔
سوال: پیر صاحب اس واقعہ سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ انگریزوں نے کیا؟پیر پگاڑا: دیکھو بھئی اگر تو لوگوں کو خوش کرنا ہے تو اور بات ہے اور اگر سچ سننا ہے تو میری معلومات یہی ہیں کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں ایک مسلم اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ بہت پہلے کر چکی تھی۔ یہ فیصلہ قرارداد پاکستان منظور ہونے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ولی خان نے جب اس بارے میں بیان دیا تو جنرل ضیا الحق نے انہیں اس معاملے پر گفتگو کی دعوت دی۔ ولی خان نے جواباً ایک فوٹو سٹیٹ کاپی انہیں بھیجی جس میں واضح طور پر یہ لکھا تھا کہ مسلم اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ 1940 سے پہلے ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ضیاالحق خاموش ہوگئے۔ میں نے لندن جا کر تو تحقیق نہیں کی لیکن میری معلومات یہی ہیں۔
سوال: پیر صاحب کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یعنی پاکستان انگریزوں نے بنایا تھا؟پیر پگاڑا: دیکھو بھئی سچ سننا ہے تو وہ تو یہی ہے وگرنہ میں بھی آپ کو کوئی کہانی سنا دیتا ہوں۔
سوال: اس کا کوئی ثبوت ہے؟
پیر پگاڑا:دیکھو بھئی برطانوی وزیراعظم چرچل کی پنجاب کے اس وقت(1937ء – 1942ء ) کے وزیراعلیٰ سر سکندر حیات (1892ء – 1942ء ) سے قاہرہ میں ملاقات ہوئی تو چرچل نے کہا کہ مسلمانوں نے سلطنت برطانیہ کے لئے جو قربانیاں دی ہیں ان کی بلڈ منی کے طور پر انہیں الگ ریاست دی جائے گی۔ میں نے یہ بات سر سکندر حیات کے بیٹے سردار شوکت حیات سے پوچھی تو انہوں نے تصدیق کی کہ چرچل نے سردار سکندر حیات سے یہ بات کی تھی۔
سوال: پیر صاحب! آپ مسلم لیگ کے صدر رہے ہیں، آپ بھی وہ بات کہہ رہے ہیں جو قوم پرست کہتے ہیں۔پیر پگاڑا: دیکھو بھئی سچ سے تکلیف تو ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جس طرح دیگر بااثر لوگوں کو انگریز نے مسلم لیگ میں بھیجا تھا۔ علامہ اقبال بھی اسی طرح مسلم لیگ میں آئے تھے۔ آپ یہ بتائیں کہ علامہ اقبال کس کے کہنے پر قائداعظم کے پاس گئے تھے۔ دیکھو بھئی جتنے بھی بااثر لوگ تھے، وہ انگریزوں کے کہنے پر مسلم لیگ میں آئے تھے۔
سوال:تو کیا آپ دو قومی نظریے سے انکار کرتے ہیں۔پیر پگاڑا:دیکھو بھئی ایک قوم ہندو تھی جو گئو ماتا کو پوجتی تھی دوسری قوم مسلمان تھی جو گئو ماتا کو کھاتی تھی تو دونوں قومیں تو الگ تھیں، البتہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں لبرل معاشرے کے قیام کے لئے بنا۔
سوال: تو کیا پاکستان بنانے میں مسلم لیگ کا کردار نہیں تھا؟پیر پگاڑا: مسلم لیگ بااثر لوگوں کی جماعت تھی۔ یہ عوامی جماعت نہیں تھی کہ جس کے ووٹر ہوں، بااثر لوگوں کے ماننے والے اسے ووٹ دیتے تھے۔ مسلم لیگ اس وقت سے لے کر آج تک جماعت نہیں بن سکی، نہ یہ کبھی جماعت بن سکے گی۔ ملک میں اقتدار انگریز کے وفاداروں کے ہاتھ میں رہے، وہی پالیسی آج تک چل رہی ہے، کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا”۔
اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد جناب پیر پگاڑا پر روزنامہ نوائے وقت نے خوب لے دے کی۔ اسی دوران لاہور کے ایک اخبار نویس نے جب ان سے دریافت کیا کہ وہ اپنے اس بیان پر کیا اب بھی قائم ہیں کہ پاکستان انگریز نے بنایا تھا؟
تو پیر پگاڑانے اپنے مخصوص انداز میں کہا:
دانش سکول کا دانش
دانش سکول کے بچے نے ٹاپ کر لیا۔ لہٰذا میڈیا / سوشل میڈیا میں اس بارے مکمل خاموشی اپنائی جائے۔
اور یا پھر ایسا نہ ہوا ہو اور منفی خبروں کی طرح یہ بھی ، موجودہ نسل کا شاخسانہ ہو ۔
چونکہ موبائل نمبر 03334824514 بھی درج تھا لہذا کنفرمیشن کے لئے فون کیا ۔
پنجابی لہجے کے ساتھ پوچھا : جی کون ؟
” سلام علیکم ، آپ وسیم یاسین صاحب بول رہے ہیں ؟” میں نے پوچھا
” جی نہیں میں اُن کا بڑا بھائی ، محمد ندیم بول رہا ہوں ” جواب ملا۔
” ندیم صاحب ، وٹس ایپ کے ذریعے معلوم ہوا کہ وسیم یاسین نے میٹرک کے امتحان میں کوئی پوزیشن لی ہے ؟ ” میں نے پوچھا ۔
” جی وہ بورڈ میں فرسٹ آیا ہے ” ندیم نے جواب دیا
” ندیم صاحب وہ کس سکول میں پڑھتا ہے ” میں نے پوچھا ۔
” دانش سکول ہے مین روڈ پر وہ بارھویں تک ہے جی ” ندیم بولا ۔
” ماشاء اللہ ! اللہ اُسے مزید کامیابیاں دے ، آمین ” میں بولا
” جی شکریہ "
"اللہ حافظ ” اور موبائل بند کردیا ۔
پہلی خواتین ڈاکٹرز
خواجہ سرا اورایک سو کروڑ روپے کے اثاثے !
الماس بوبی نے تقریبا 110 ملین روپے مالیت کے اثاثے ظاہر کئے ہیں جبکہ انہوں نے 5 فیصد کے حساب سے 5.5 ملین روپے کا ٹیکس بھی ادا کیا ہے۔
میں نے آج تک آپ کی کیمیو نٹی کے کسی بزرگ ( خوا جہ خسرا ) کو کسمپرسی کی موت مرتے نہیں دیکھا ۔ میں نے بہت کم دیکھا کہ کو ئی خسرہ دوائی نہ ملنے سے کی وجہ سے پریشان ہو ایسا کیوں ؟
الماس بو بی نے کہا :
ہما رے گرو یا ہما ری فیملی کا کو ئی بھی فرد بیمار ہو جا ئے تو ہم سب اپنے پر اس پہ اس طرح پھیلا دیتے ہیں جیسے مر غی اپنے چوزوں پر ۔
رہے خواجہ سرا ، الماس بوبی نے ٹی وی ایک مُفتی اور کمنٹیٹر سے بحث کے دوران بتایا ۔ کہ خواجہ سرا ، دو طرح کے ہوتے ہیں ۔
مرد خواجہ سرا (زنخے ) اور عورتیں خواجہ سرا (زنخیاں) ۔
عورتیں خواجہ سرا : وہ ہوتی ہیں ، جن میں عورات النساء مکمل نہیں ہوتے ، اللہ کی یشاء سے وہ اپنی جسمانی بیماری( کزن میرج ) کی وجہ سے مکمل عورت بننے سے رہ جاتی ہیں ۔ اُن مائیں یہ سب جانتے ہوئے بھی چھپا کر اُن کی شادیاں کروا دیتی ہیں ، شوہر کو معلوم ہونے کے بعد ،اُنہیں طلاق ہو جاتی ہے کیوں کے اِن کے اولاد نہیں ہوسکتی ۔
عورت خواجہ سرا ، میں پستان نہیں ہوتے ، جس کی وجہ ہارمونز کا غیر متوازن ہونا ہے لہذا اُنہیں حیض بھی نہیں آتا یا اِن ایام میں تواتر نہیں ہوتا ۔کچھ میں ، اندامِ نہانی مکمل نہیں ہوتی ۔ بس پیشاب کا سوراخ ہوتا ہے ، جسمانی ہڈیاں عورت کے جسم کی طرح ہوتی ہیں ۔ ایسی خواتین کو سدا سہاگن بھی کہا جاتا ہے –
یہ اپنے ماں باپ کے پاس ہی رہتی ہیں اور خواجہ سراؤں کے گروپ میں شامل نہیں ہوتیں ۔
پہلی: اِن کی تین قسمیں ہوتی ہیں :
1۔ مکمل عضو تناسل والے : جوانی شروع ہونے پر کچھ لڑکوں کو احساس پیدا ہوتا ہے ، کہ اُن میں جنسی تحریک پیدا نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے ، تو کمزور رہتی ہے ۔یہ جنسی فعل نہیں کر سکتے ۔ یہ سب خواجہ سرا گروپ میں شامل نہیں ہوتے ، کیوں کہ اُن کی مردانگی اُنہیں اِس کی اجازت نہیں دیتی ، یہ شادیاں بھی کرتے ہیں ۔
2- جن کے عضو تناسل کاٹ یا بے کار کر دئے جاتے ہیں : (Eunuch) پرانے زمانے میں ایسے مرد ، امیر لوگوں اور بادشاہوں ، زنان خانوں پر پہرا دینے کے لئے رکھے جاتے تھے ۔
لازمی بات ہے کہ جنسی فعل کرنے والے ، قومِ لوط کر فرزندان ہوں گے ۔
نوٹ : کسی صاحبِ ادراک سے سوال ہوا :
جناب کیا طوائف کی نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ؟صاحبِ ادراک نے جواب دیا :
جب طوائف سے جنسی فعل کرنے والے کی نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے تو طوائف کی کیوں نہیں !
مزید پڑھیں : آیات اللہ اور خواجہ سرا